Friday, 28 March 2014
Monday, 17 March 2014
bh
مَاکَانَ اللَّہُ لِیَذَرَالْمُؤْمِنِیْنَ عَلیٰ مَآاَنْتُمْ عَلَیْہِ
حَتّیٰ یَمِیْذَ ا لْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیّبِ ط وَمَاکَانَ اللَّہُ
لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللَّہَ یَجْتَبِیْ مِن
رُّسُلِہِ مَنْ یَّشَاءُ ص فاٰ مِنُوْابِاللَّہِ وَرُسُلِہِ ج وَاِنْ
تُؤْمِنُوْ اوَتَتَّقُوْ ا فَلَکُمْ اَجْرٌعَظِیْمٌ O 179 اٰلِ عمرٰن
( (ترجمہ کنزالایمان)) اللہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کر دے گندے کو سُتھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیز گا ری کرو تو تمہا رے لیے بڑا ثواب ہےAllah is not to leave the Muslims in the present state of affairs in which you are, until He separates unpure from the pure. (Wicked from the good) And it is not befitting to the dignity of Allah that O general people! He let you know the unseen. Yes, Allah chooses from amongst His messengers whom He pleases. Then believe in Allah and His messengers. And if you accept faith and fear, then there is great reward for you
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 179کا نزول اس وقت ہو ا جب منافقین نے رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کا انکار کیا ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت صدرالا فا ضل سیّدمحمد نعیمُ الدین مُراد آبادی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خلقت و آفرینش سے پہلے جبکہ میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی ۔جیسا کہ آدم ؑ پر پیش کی گئی ۔اور مجھ کو علم دیا گیا ، کون مجھ پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا ۔ ۔یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے کہا محمد ﷺ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کو ن ان پر ایمان لائے گا ، کو ن کفر کرے گا ۔ باوجود یہ کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں
پہچانتے ۔ اس پر سیّد عالم ﷺ نے ممبر پر قیا م فرما کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن کرتے ہیں
آج سے قیا مت تک جو کچھ ہو نے والا ہے اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرواور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں ۔ عبد اللہ بن حذافہ سہمی (ان کی نسب پر طعن کیا جاتا تھا) نے کھڑے ہو کر کہامیرا باپ کون ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا حذافہ پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے انہوں نے عر ض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم اللہ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ،اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے ،قرآن کے امام ہونے پر راضی ہوئے،آپ کے نبی ﷺ ہونے پر راضی ہوئے ۔ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں ،۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم باز آؤ گے ، کیا تم باز آؤ گے ، پھر ممبر سے اتر آئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم فرمایا گیا ہے ۔اور حضور ﷺ کے علم غیب میں طعن کرنا منافقین کا طریقہ ہے
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ غیب پر مطلع ہو نا ہر کسی کے اختیارکی بات نہیں ، اور نہ ہر ایک میں اِس کی صلاحِیّت پائی جا تی ہے ۔
جو عام لوگ ہوتے ہیں ان کا علم ظاہری علامات پہ اور دلائل پہ ہو تا ہے۔غیب پر صرف رسولوں کو آگاہ کیا جا تا ہے کیونکہ ان میں ہی غیب کو جاننے کی خصوصیت پائی جاتے ہے ۔اور اولیا ء کو یہ نعمت حضور جانِ رحمت ﷺکی غلامی سے میسّر آتی ہے ۔اور حضور ﷺ کے وسیلہ کے بغیر یہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی ۔(رُوح المعانی) اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے بغیر علمِ غیب حاصل نہیں ہو سکتا وہ جتنا چاہتا ہے اپنے رسولوں کو سیکھا دیتا ہے ۔اور اُس ذاتِ کریم نے اپنے حبیب ﷺ کو جتنا چا ہا دیا ۔اب یہاں پہ ایک بات اچھی طرح ذہن میں رکھنے کے قابل ہے اس پہ عقیدہ پکا ہونا چاہے کہ اللہ کا علم غیر متناہی ہے اس کی کوئی حد نہیں اورہم انسانوں کی عقل میں اس کا شمار ناممکن ہے ۔جب اللہ کے علم کی کوئی حد ہے ہی نہیں اور نہ وہ مخلوق کے شمار میں آسکتا ہے تو اس کے علم کا بعض کیسے کسی انسان کے شمار میں آسکتا ہے اللہ نے جتنا چاہا اتنا دیا کوئی انسان یہ کیسے جان سکتا ہے کہ اللہ نے کتنا علم عطاء فرمایا اس کی عطاؤں کا شمار ممکن نہیں ۔اس سے ثابت ہو تا ہے کہ جو غیب کے بعض علوم اللہ نے اپنے رسولوں کو عطا فرمائے ہیں ہم ان کا شمار نہیں کر سکتے۔ اور جو تمام رسولوں کے سردار ہیں جو تمام انبیا ء کے امام ہیں جو کائنات کی جان ہیں اور جو سیّد انبیاءﷺ ہیں رسولوں میں سب سے ا فضل اور اعلیٰ ہیں ان کا عالم کیا ہو گا ؟ان کے علومِ غیبیہ کا اندازہ کیسے کوئی کر سکتا ہے ۔ جو سیّد انبیاءﷺ کو اللہ کی طرف سے عطا ء کئے ہوئے علمِ غیب کا انکار کرتے ہیں وہ لفظ نبی کو جان ہی نہیں پائے کہ اس عربی کے لفظ نبی کے معنیٰ کیا ہیں ؟عربی کے اس لفظ نبی کے معنیٰ ہی غیب کی خبربتانے والے کے ہیں ۔ وہ حقیقت میں قرآن کا انکا ر کر رہے ہیں وہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 179 کا انکار کر رہے ہیں اصل میں وہ اللہ کی عطاؤں کا انکار کر رہے ہیں وہ جب بھی بات کرتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو اپنے علمِ غیر متناہی سے جتنا چاہاہے دیا ہے ۔نہ کہ معاذ اللہ ان کے علم سے دیا ہے۔ کوئی انسان اللہ کے چاہنے کو کیسے جان سکتا ہے کہ اللہ کا جتنا کتنا ہے ۔ وہ تو اللہ اور اس کے محبوب ﷺاور رسولوں کا معاملہ ہے ۔ یہ اللہ کی عطاؤں پہ اعتراز کرنے والے کون ہیں ؟کیا یہ اللہ کی بات ماننے والے ہو سکتے ہیں ؟اپنے ہی نبی ﷺ کی اللہ کی طرف سے عطا کی ہوئی خصوصیات کا انکار کرنے والے کیا اس نبی ﷺ کے اُمتی ہو سکتے ہیں ؟ وہ اپنے چھوٹے ذہین میں رکھنے والی چھوٹی سوچ سے سوچتے ہیں ۔اللہ ہدایت دے ان کو جو بے علمی میں ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں ۔(آمین )حقیقت میں ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے ہم تمام مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مصطفےٰ ﷺ کے دلِ منوّر کو علومِ غیبیہ سے بھر پور فرما یا ۔لیکن حضور ﷺ کا علم نہ اللہ تعالیٰ کے علم کی طرح ذاتی ہے نہ ہی غیر متناہی ہے ۔بلکہ وہ مخصوص اللہ کی عطائیں ہیں ۔او ر ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے علم کی کوئی حد نہیں کیونکہ اللہ کا علم غیر متناہی ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جورسول اللہ ﷺ کو علم عطا ہوا وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے تو ہم انسان کیسے اللہ کی عطاؤں کی پیمائش کر سکتے ہیں اور کیسے رسول اللہ ﷺ کا علم شمار میں لاسکتے ہیں کیونکہ اللہ کی عطاؤں کو ناپنا انسان کے بس میں نہیں اوراس کے لئے یہ ناممکن ہے ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ حضور ﷺکے علم کی نسبت ذرّہ ا ور صحرا ، قطرہ اور سمند ر کی بھی نہیں ۔اور رسول اللہ ﷺ کے علم کے سامنے باقی مخلوق کا علم بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا اور حبیبِ خدا ﷺ کے علم کا سمندر اللہ کی ایسی عطا ء ہے جس کی گہرائی کو آج تک کوئی نہ پا سکا اور جس کے کنا رہ تک کوئی شناور آج تک نہ پہنچ سکا ۔صحابہؓ ، تابعین ،تبع تابعین، علمائے ملتِ اسلامیہ ،سلف ،صالحین اور تمام بزرگانِ دین کا پختہ عقیدہ تھا اور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو غیب کا علم عطا ء کیا ۔اور مصطفےٰﷺ اللہ کی عطا ء سے غیب کا علم رکھتے ہیں ۔ان کی مقدس نگاہوں کے سامنے سے حجابات ہٹا دیئے گئے تھے اور روئے زمین ان کے لئے سمیٹ کر ایک ہتھیلی کی مانندکر دی گئی تھی ۔جس طرح ہر آدمی اپنی ہتھیلی کو بغیر کسی تکلف وتردد کے دیکھ سکتا ہے اور جب چاہے دیکھ سکتا ہے ، تومصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ پوری دنیا بلکہ پوری کائنات کو اللہ کی عطا ء کردہ اپنی دُوررس دیکھنے کی قوت سے دیکھنے کا تصور و اختیار رکھتے ہیں ۔آج بھی تمام مسلمان عقیدے کے اعتبار سے ایک ہیں جو صحابہؓ کے عقیدے سے پھر گیا وہ خارج ہو گیا ۔صحابہؓ اپنے نبی ﷺ کے علمِ غیب کے بارے میں کیسا عقیدہ رکھتے ہیں اس کاایک ثبوت تو جنگِ موتہ سے بھی آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں ۔ مصطفےٰﷺ جانِ رحمت کے علم غیب کے بارے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ،نسائی ،اور ابنِ ماجہ ،نے صحت روایت کے ساتھ جنگِ موتہ کا بیان لکھا ہے کہ جب اسلامی فوج جنگِ موتہ میں کفار کی فوج کے ساتھ مقابلہ میں مصروف قتال تھی،اس وقت مصطفےٰﷺ جانِ رحمت مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے ۔ آپ ﷺ کی نظر مُبارک سے حجابا ت اٹھ گئے تھے اور جنگِ موتہ کے تمام حالات اپنی مُبارک آنکھوں سے اس طرح دیکھ رہے تھے کہ آپ میدانِ جنگ میں خود تشریف فرما ہو کر معائنہ فرما رہے ہوں ۔آپ ﷺ اپنے صحابہ ؓ سے فرماتے جاتے کہ زید بن حارث نے جھنڈا اٹھا یاہے اور اب وہ شہید ہو گئے ہیں ۔ان کے بعد جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا لیا اور وہ بھی شہید ہو گئے ۔اب عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا تھامہ ہے اب وہ بھی شہید ہو گئے ہیں آپ ﷺ یہ فرماتے جاتے اورآنکھو ں سے آنسو بہاتے جاتے تھے۔تھوڑی دیر کے بعدفرمایا کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ..یعنی ..حضرت خالد بن ولیدؓ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ،اور انہی کے ہاتھ پہ فتح حاصل ہو گی ۔ اسی دن سے حضرت خالدؓ بن ولید کا لقب سیف اللہ .. (اللہ کی تلوار ) مشہور ہو گیا ۔ مسلمانوں کے لئے یہ منظر با حکمت او ر سبق آموز ہے کہ کہاں جنگِ موتہ کا میدانِ جنگ اور کہاں پہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر مصطفےٰﷺ جانِ رحمت اپنے صحابہ کے ساتھ۔رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کا انکار کرنے والے اصل میں اللہ کے نبی ﷺ پراللہ کی عطاء کردہ خصوصیات کا انکار کر رہے ہیں ۔یہ کیسی پیاری بات ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید کو ملنے والا لقب بھی اللہ کے رسول ﷺ کا علمِ غیب ثابت کر رہا ہے یعنی جس لمحے مدینہ منورہ سے دور جنگ موتہ کے میدانِ جنگ میں اسلامی فوج کا جھنڈا حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے ہاتھ میں لیا اُسی لمحے آپؓ کو مدینہ کی سر زمین سے اللہ کے محبوب ﷺ کی طرف سے اللہ کی تلوار کا لقب حاصل ہوا سبحان اللہ کیاشان ہے میرے مصطفےٰ ٰﷺکی اور سبحان اللہ کیاعطائیں ہیں اپنے محبوب ﷺ پر میرے اللہ عزوجل کی ۔
( (ترجمہ کنزالایمان)) اللہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کر دے گندے کو سُتھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیز گا ری کرو تو تمہا رے لیے بڑا ثواب ہےAllah is not to leave the Muslims in the present state of affairs in which you are, until He separates unpure from the pure. (Wicked from the good) And it is not befitting to the dignity of Allah that O general people! He let you know the unseen. Yes, Allah chooses from amongst His messengers whom He pleases. Then believe in Allah and His messengers. And if you accept faith and fear, then there is great reward for you
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 179کا نزول اس وقت ہو ا جب منافقین نے رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کا انکار کیا ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت صدرالا فا ضل سیّدمحمد نعیمُ الدین مُراد آبادی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ خلقت و آفرینش سے پہلے جبکہ میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی ۔جیسا کہ آدم ؑ پر پیش کی گئی ۔اور مجھ کو علم دیا گیا ، کون مجھ پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا ۔ ۔یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے کہا محمد ﷺ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کو ن ان پر ایمان لائے گا ، کو ن کفر کرے گا ۔ باوجود یہ کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں
پہچانتے ۔ اس پر سیّد عالم ﷺ نے ممبر پر قیا م فرما کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن کرتے ہیں
آج سے قیا مت تک جو کچھ ہو نے والا ہے اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرواور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں ۔ عبد اللہ بن حذافہ سہمی (ان کی نسب پر طعن کیا جاتا تھا) نے کھڑے ہو کر کہامیرا باپ کون ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا حذافہ پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے انہوں نے عر ض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم اللہ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ،اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے ،قرآن کے امام ہونے پر راضی ہوئے،آپ کے نبی ﷺ ہونے پر راضی ہوئے ۔ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں ،۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم باز آؤ گے ، کیا تم باز آؤ گے ، پھر ممبر سے اتر آئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم فرمایا گیا ہے ۔اور حضور ﷺ کے علم غیب میں طعن کرنا منافقین کا طریقہ ہے
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ غیب پر مطلع ہو نا ہر کسی کے اختیارکی بات نہیں ، اور نہ ہر ایک میں اِس کی صلاحِیّت پائی جا تی ہے ۔
جو عام لوگ ہوتے ہیں ان کا علم ظاہری علامات پہ اور دلائل پہ ہو تا ہے۔غیب پر صرف رسولوں کو آگاہ کیا جا تا ہے کیونکہ ان میں ہی غیب کو جاننے کی خصوصیت پائی جاتے ہے ۔اور اولیا ء کو یہ نعمت حضور جانِ رحمت ﷺکی غلامی سے میسّر آتی ہے ۔اور حضور ﷺ کے وسیلہ کے بغیر یہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی ۔(رُوح المعانی) اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے بغیر علمِ غیب حاصل نہیں ہو سکتا وہ جتنا چاہتا ہے اپنے رسولوں کو سیکھا دیتا ہے ۔اور اُس ذاتِ کریم نے اپنے حبیب ﷺ کو جتنا چا ہا دیا ۔اب یہاں پہ ایک بات اچھی طرح ذہن میں رکھنے کے قابل ہے اس پہ عقیدہ پکا ہونا چاہے کہ اللہ کا علم غیر متناہی ہے اس کی کوئی حد نہیں اورہم انسانوں کی عقل میں اس کا شمار ناممکن ہے ۔جب اللہ کے علم کی کوئی حد ہے ہی نہیں اور نہ وہ مخلوق کے شمار میں آسکتا ہے تو اس کے علم کا بعض کیسے کسی انسان کے شمار میں آسکتا ہے اللہ نے جتنا چاہا اتنا دیا کوئی انسان یہ کیسے جان سکتا ہے کہ اللہ نے کتنا علم عطاء فرمایا اس کی عطاؤں کا شمار ممکن نہیں ۔اس سے ثابت ہو تا ہے کہ جو غیب کے بعض علوم اللہ نے اپنے رسولوں کو عطا فرمائے ہیں ہم ان کا شمار نہیں کر سکتے۔ اور جو تمام رسولوں کے سردار ہیں جو تمام انبیا ء کے امام ہیں جو کائنات کی جان ہیں اور جو سیّد انبیاءﷺ ہیں رسولوں میں سب سے ا فضل اور اعلیٰ ہیں ان کا عالم کیا ہو گا ؟ان کے علومِ غیبیہ کا اندازہ کیسے کوئی کر سکتا ہے ۔ جو سیّد انبیاءﷺ کو اللہ کی طرف سے عطا ء کئے ہوئے علمِ غیب کا انکار کرتے ہیں وہ لفظ نبی کو جان ہی نہیں پائے کہ اس عربی کے لفظ نبی کے معنیٰ کیا ہیں ؟عربی کے اس لفظ نبی کے معنیٰ ہی غیب کی خبربتانے والے کے ہیں ۔ وہ حقیقت میں قرآن کا انکا ر کر رہے ہیں وہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 179 کا انکار کر رہے ہیں اصل میں وہ اللہ کی عطاؤں کا انکار کر رہے ہیں وہ جب بھی بات کرتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو اپنے علمِ غیر متناہی سے جتنا چاہاہے دیا ہے ۔نہ کہ معاذ اللہ ان کے علم سے دیا ہے۔ کوئی انسان اللہ کے چاہنے کو کیسے جان سکتا ہے کہ اللہ کا جتنا کتنا ہے ۔ وہ تو اللہ اور اس کے محبوب ﷺاور رسولوں کا معاملہ ہے ۔ یہ اللہ کی عطاؤں پہ اعتراز کرنے والے کون ہیں ؟کیا یہ اللہ کی بات ماننے والے ہو سکتے ہیں ؟اپنے ہی نبی ﷺ کی اللہ کی طرف سے عطا کی ہوئی خصوصیات کا انکار کرنے والے کیا اس نبی ﷺ کے اُمتی ہو سکتے ہیں ؟ وہ اپنے چھوٹے ذہین میں رکھنے والی چھوٹی سوچ سے سوچتے ہیں ۔اللہ ہدایت دے ان کو جو بے علمی میں ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں ۔(آمین )حقیقت میں ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے ہم تمام مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مصطفےٰ ﷺ کے دلِ منوّر کو علومِ غیبیہ سے بھر پور فرما یا ۔لیکن حضور ﷺ کا علم نہ اللہ تعالیٰ کے علم کی طرح ذاتی ہے نہ ہی غیر متناہی ہے ۔بلکہ وہ مخصوص اللہ کی عطائیں ہیں ۔او ر ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے علم کی کوئی حد نہیں کیونکہ اللہ کا علم غیر متناہی ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جورسول اللہ ﷺ کو علم عطا ہوا وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے تو ہم انسان کیسے اللہ کی عطاؤں کی پیمائش کر سکتے ہیں اور کیسے رسول اللہ ﷺ کا علم شمار میں لاسکتے ہیں کیونکہ اللہ کی عطاؤں کو ناپنا انسان کے بس میں نہیں اوراس کے لئے یہ ناممکن ہے ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ حضور ﷺکے علم کی نسبت ذرّہ ا ور صحرا ، قطرہ اور سمند ر کی بھی نہیں ۔اور رسول اللہ ﷺ کے علم کے سامنے باقی مخلوق کا علم بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا اور حبیبِ خدا ﷺ کے علم کا سمندر اللہ کی ایسی عطا ء ہے جس کی گہرائی کو آج تک کوئی نہ پا سکا اور جس کے کنا رہ تک کوئی شناور آج تک نہ پہنچ سکا ۔صحابہؓ ، تابعین ،تبع تابعین، علمائے ملتِ اسلامیہ ،سلف ،صالحین اور تمام بزرگانِ دین کا پختہ عقیدہ تھا اور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو غیب کا علم عطا ء کیا ۔اور مصطفےٰﷺ اللہ کی عطا ء سے غیب کا علم رکھتے ہیں ۔ان کی مقدس نگاہوں کے سامنے سے حجابات ہٹا دیئے گئے تھے اور روئے زمین ان کے لئے سمیٹ کر ایک ہتھیلی کی مانندکر دی گئی تھی ۔جس طرح ہر آدمی اپنی ہتھیلی کو بغیر کسی تکلف وتردد کے دیکھ سکتا ہے اور جب چاہے دیکھ سکتا ہے ، تومصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ پوری دنیا بلکہ پوری کائنات کو اللہ کی عطا ء کردہ اپنی دُوررس دیکھنے کی قوت سے دیکھنے کا تصور و اختیار رکھتے ہیں ۔آج بھی تمام مسلمان عقیدے کے اعتبار سے ایک ہیں جو صحابہؓ کے عقیدے سے پھر گیا وہ خارج ہو گیا ۔صحابہؓ اپنے نبی ﷺ کے علمِ غیب کے بارے میں کیسا عقیدہ رکھتے ہیں اس کاایک ثبوت تو جنگِ موتہ سے بھی آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں ۔ مصطفےٰﷺ جانِ رحمت کے علم غیب کے بارے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ،نسائی ،اور ابنِ ماجہ ،نے صحت روایت کے ساتھ جنگِ موتہ کا بیان لکھا ہے کہ جب اسلامی فوج جنگِ موتہ میں کفار کی فوج کے ساتھ مقابلہ میں مصروف قتال تھی،اس وقت مصطفےٰﷺ جانِ رحمت مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے ۔ آپ ﷺ کی نظر مُبارک سے حجابا ت اٹھ گئے تھے اور جنگِ موتہ کے تمام حالات اپنی مُبارک آنکھوں سے اس طرح دیکھ رہے تھے کہ آپ میدانِ جنگ میں خود تشریف فرما ہو کر معائنہ فرما رہے ہوں ۔آپ ﷺ اپنے صحابہ ؓ سے فرماتے جاتے کہ زید بن حارث نے جھنڈا اٹھا یاہے اور اب وہ شہید ہو گئے ہیں ۔ان کے بعد جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا لیا اور وہ بھی شہید ہو گئے ۔اب عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا تھامہ ہے اب وہ بھی شہید ہو گئے ہیں آپ ﷺ یہ فرماتے جاتے اورآنکھو ں سے آنسو بہاتے جاتے تھے۔تھوڑی دیر کے بعدفرمایا کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ..یعنی ..حضرت خالد بن ولیدؓ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ،اور انہی کے ہاتھ پہ فتح حاصل ہو گی ۔ اسی دن سے حضرت خالدؓ بن ولید کا لقب سیف اللہ .. (اللہ کی تلوار ) مشہور ہو گیا ۔ مسلمانوں کے لئے یہ منظر با حکمت او ر سبق آموز ہے کہ کہاں جنگِ موتہ کا میدانِ جنگ اور کہاں پہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر مصطفےٰﷺ جانِ رحمت اپنے صحابہ کے ساتھ۔رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کا انکار کرنے والے اصل میں اللہ کے نبی ﷺ پراللہ کی عطاء کردہ خصوصیات کا انکار کر رہے ہیں ۔یہ کیسی پیاری بات ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید کو ملنے والا لقب بھی اللہ کے رسول ﷺ کا علمِ غیب ثابت کر رہا ہے یعنی جس لمحے مدینہ منورہ سے دور جنگ موتہ کے میدانِ جنگ میں اسلامی فوج کا جھنڈا حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے ہاتھ میں لیا اُسی لمحے آپؓ کو مدینہ کی سر زمین سے اللہ کے محبوب ﷺ کی طرف سے اللہ کی تلوار کا لقب حاصل ہوا سبحان اللہ کیاشان ہے میرے مصطفےٰ ٰﷺکی اور سبحان اللہ کیاعطائیں ہیں اپنے محبوب ﷺ پر میرے اللہ عزوجل کی ۔
Rajana ( s ) Protection qualify Sunni Conference Karachi , protection Deobandi conference , the qualified Sunni no relation , in this regard, government initiatives are astounding Banned organizations renamed the working and pay no restriction JUP eligible Sunni ideology security will keep their remarks district General Secretary JUP Toba , Dr Saif al- Qamar, a statement in the kyaanhun the public to mislead those who never achieved their goals are not eligible Sunni discredit to lapse after the ban on Sunni wal SSP name , be aware people about national rules in the government sector were positive steps is the only way to establish peace in the country and the nation as bribery and corruption in trouble kumaasry can deliver , Pakistan Jamiat Ulema -e-Mustafa (PBUH) places the shroud tied at the ends to protect the spectrum of left 295c will strengthen the global conspiracies .
Rajana ( s )
Protection qualify Sunni Conference Karachi , protection Deobandi conference , the qualified Sunni no relation , in this regard, government initiatives are astounding Banned organizations renamed the working and pay no restriction JUP eligible Sunni ideology security will keep their remarks district General Secretary JUP Toba , Dr Saif al- Qamar, a statement in the kyaanhun the public to mislead those who never achieved their goals are not eligible Sunni discredit to lapse after the ban on Sunni wal SSP name , be aware people about national rules in the government sector were positive steps is the only way to establish peace in the country and the nation as bribery and corruption in trouble kumaasry can deliver , Pakistan Jamiat Ulema -e-Mustafa (PBUH) places the shroud tied at the ends to protect the spectrum of left 295c will strengthen the global conspiracies .
Protection qualify Sunni Conference Karachi , protection Deobandi conference , the qualified Sunni no relation , in this regard, government initiatives are astounding Banned organizations renamed the working and pay no restriction JUP eligible Sunni ideology security will keep their remarks district General Secretary JUP Toba , Dr Saif al- Qamar, a statement in the kyaanhun the public to mislead those who never achieved their goals are not eligible Sunni discredit to lapse after the ban on Sunni wal SSP name , be aware people about national rules in the government sector were positive steps is the only way to establish peace in the country and the nation as bribery and corruption in trouble kumaasry can deliver , Pakistan Jamiat Ulema -e-Mustafa (PBUH) places the shroud tied at the ends to protect the spectrum of left 295c will strengthen the global conspiracies .
Wednesday, 5 March 2014
Monday, 3 March 2014
Subscribe to:
Posts (Atom)